داعش کے خلاف لڑائی میں صدر براک اوباما کے خصوصی ایلچی نے جمعے کے روز کہا ہے کہ تنظیم کی حیثیت سے دہشت گرد گروپ زوال کی طرف گامزن ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ عراق میں گروپ کا تقریباً 50 فی صد رقبہ چھینا جا چکا ہے، جس میں ترکی سے ملنے والا سرحدی خطہ بھی شامل ہے۔
بریٹ مک گرک نے وائٹ ہائوس کے اخباری نمائندوں کو بتایا کہ داعش کے لڑاکوں کی ’’ہمت جواب دیتی جارہی ہے‘‘، جب کہ خود اُن کے وڈیوز سے پتا چلتا ہے کہ ’’اُن کے رہنما میدانِ جنگ میں اپنے ہی لڑاکوں کے سر قلم کر رہے ہیں اور ساتھ ہی بھگوڑوں کی تعداد بڑھتی جارہی ہے‘‘۔
اُنھوں نے بتایا کہ داعش کے پروپیگنڈہ بیانات میں یہ بات تسلیم کی گئی ہے کہ اُن کا فتوحہ علاقہ واپس لیا جا رہا ہے، جب کہ بھرتی کے خواہش مندوں سے کہا گیا ہے کہ شام کی جگہ وہ لیبیا کا رُخ کریں۔
داعش کے لیڈر، ابو بکر البغدادی سے متعلق سوال پر، مک گرک نے کہا کہ ’’میں نہیں سمجھتا کہ وہ ابھی تک زندہ نہیں ہیں‘‘، حالانکہ گذشتہ برس کے اواخر سے اُنھیں کہیں دیکھا نہیں گیا۔
مک گرک نے کہا کہ خلافت کے خود ساختہ رہنما، بغدادی عام طور پر متبرک ماہ رمضان کے آغاز پر اپنے پیروکاروں سے گفتگو کیا کرتے تھے۔ اُنھوں نے کہا کہ بغدادی کی جانب سے لوگوں کو شکل نہ دکھانا ظاہر کرتا ہے کہ شدت پسند گروپ اعتماد کھوتا جا رہا ہے۔
right;">
ایلچی نے عراق کے مقامی ذرائع سے سامنے آنے والی غیرتصدیق شدہ رپورٹوں کا ذکر نہیں کیا جن میں بتایا گیا ہے کہ جمعرات کو شام کی سرحد کے قریب داعش کی کمان کے ہیڈکوارٹرز پر اتحاد کے فضائی حملوں میں بغدادی کے علاوہ داعش کے دیگر رہنما زخمی ہوئے ہیں۔ غیرجانبدار ذرائع سے اِن رپورٹوں کی تصدیق نہیں ہو پائی۔
ایوانِ نمائندگان کی ہوم لینڈ سکیورٹی کمیٹی کے سربراہ، مائیکل میکال نے جمعے کو ایک بیان جاری کیا ہے جس میں یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ اوباما انتظامیہ اس تاثر کو ہوا دینے کی کوشش کر رہی ہے کہ داعش بکھر چکی ہے۔ ٹیکساس سے تعلق رکھنے والے ایوان کے رُکن نے کہا اُن کا خیال یہ ہے کہ دہشت گرد پیش قدمی کر رہے ہیں۔
میکال مشرق وسطیٰ کے متعدد جنگ زدہ علاقوں کا دورہ کرکے حال ہی میں لوٹے ہیں۔ اُنھوں نے بتایا کہ شام اور عراق میں داعش کی موجودگی کے علاوہ، یہ دہشت گرد گروپ اور اُس سے وابستہ دیگر تنظیمیں مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ اور الجیریا سے پاکستان تک اپنے خود ساختہ ’’صوبوں‘‘ میں مضبوط گڑھ قائم کر چکے ہیں۔ بقول اُن کے، یہ ایسے علاقے ہیں جہاں سے اسلامی انتہاپسند مغرب کے خلاف حملے کرسکتے ہیں۔
اُن کے الفاظ میں ’’جہاں کہیں بھی آپ کو ناکام ریاستیں دکھائی دیتی ہوں، وہاں اقتدار کا خلا پُر کرنے کے لیے، اور بیرونی کارروائیوں کے لیے، یہ شدت پسندی کے ٹھکانوں کی دلپسند آماجگاہ ثابت ہو رہی ہیں‘‘۔